حقیقی آزادی

حقیقی آزادی

238 0 0

زادی ایک بڑی نعمت ہے اور کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا۔ انفرادی آزادی ایک فطری عمل ہے۔ ہر انسان اپنے آپ کو آزاددیکھنا چاہتا ہے۔ کھلی فضا میں سانس لینا چاہتا ہے۔ اپنا ہر کام وہ بلا روک ٹوک کرنا چاہتا ہے۔ جس طرح شخصی آزادی کی اہمیت ہے اسی طرح اجتماعی آزادی اس سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ جب ملک آزاد نہ ہوگا تو وہاں کی رعایا کبھی بھی شخصی آزادی حاصل نہیں کرسکتی۔ پاکستان دو قومی نظریے کی بنا پر وجود میں آیا۔ لبرل طبقہ اس نظریے کو ماننے سے انکاری ہے۔ لیکن ہو نہ ہو یہ محرک پاکستان کو آزادی دلانے میں بے حد معاون ثابت ہوا۔

ابھی ابتدا میں میں نے شخصی آزادی کا ذکر کیا شخصی آزادی میں آپ کی مذہبی عبادت، آپ کا رہن سہن، رسم و رواج شامل ہیں۔ ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے مسلمان کبھی بھی یہ سب حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ گائے ذبح کرنے پر پابندی عاید کردینا اور خاص طور پر بڑی عید پر جب مسلمان جانور قربان کرتے تو ان کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی جاتی۔

کانگریس کی کٹر ہندو سوچ نے مسلمانوں پر در حیات بند کرکے رکھ دیا۔ گول میز کانفرس پر مذاکرات ہوں، کرپس مشن تجویز ہو یا سائمن کمیشن، ان سب معاہدوں سے انحراف کانگریس نے کیا۔ رفتہ رفتہ انہی وجوہات نے پاکستان کی تخلیق کی راہ ہموار کی اور خاص طور پر کانگرسی وزارتیں۔ انگریز راج کا بنایا ہوا 1935 کا ایکٹ تھا جس کے تحت کانگریسی وزارتوں کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ شدھی اور سنگھٹن جیسی تحریکیں جس کے تحت مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ مسلمانوں کے احساسات کو مجروح کرنے کے لیے تمام سرکاری عمارتوں پر ترنگا نامی جھنڈا لہرایا گیا۔ مسلمان طالب علموں کو زبردستی گاندھی جی کی مورتی کی پوجا کرنے پر مجبور کیا جاتا۔ مسلم عبادت گاہوں میں عبادت کے دوران بینڈ باجے بجا کر ان کو تنگ کیا جاتا۔ بنکم چندرا کا لکھا ہوا ترانہ وندے ماترم مسلم بچوں کو زبردستی پڑھایا جاتا۔

یہ وہ محرکات ہیں جن سے یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کو آزادی حاصل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اب بھی بھارت کا جارحانہ رویہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کو ہر وقت نقصان پہنچانے کے درپے رہتا ہے۔ کشمیریوں کا خون بہا کر وہ اپنے اندر کی لگی آگ کو ٹھنڈا کر رہا ہے۔ جو بھی اس کے عزائم ہیں وہ پاکستان کو مٹانے کے لیے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ہمارے بڑوں نے جو قربانیاں دی اُن کی قیمت لگائی نہیں جاسکتی۔ آج انہی کی بدولت ہم پاکستان کی آزاد فضآ میں سانس لےرہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے کوئی ایسا موقع نہیں جس میں اس فضا کو سوگوار نہ کیا گیا ہو۔ کئی دفعہ تو ایسی گھٹن جنم لے لیتی ہے جو سانس لینا دشوار کردیتی ہے۔ پاکستان بنتے وقت غیرمسلموں کا خون بہاتے تھے لیکن اب ان (آزاد حدود) میں اپنے ہی اپنوں کا خون بہاتے نظر اتے ہیں۔ اغوا، راہزنی، قتل وغارت اور زیادتی کے ان گنت کیسز وقوع پذیر ہو چکے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔

کیا یہی وہ پاکستان ہے جو امن اور آشتی کے ساتھ رہنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ بدامنی نے انسانی ذہنوں پر وہ خوف کے نقوش چھوڑ دیے جن کو آسانی سے مٹایا نہیں جاسکتا۔ پاکستان میں رواں سال اغوا کی وارداتوں میں ان گنت اضافہ ہوا ہے۔ والدین گھر سےا پنے بچے نہیں نکالتے کہ خدانخواستہ کہیں انہیں اغوا نہ کرلیا جائے۔ کوئی