بھوک کو سولی پر لٹکا دو

بھوک کو سولی پر لٹکا دو

256 1 0

پیٹ بھرا ہو تو انسانیت، غیرت اور ترقی پر طویل بحث کی جا سکتی ہے. معاشرتی برائیوں کی طویل فہرست اور اٰن سے نمٹنے کے ایک سو ایک طریقے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ مگر جب پیٹ خالی ہو تو انسانیت، غیرت، عزت ہر چیز بے معنی ہو جاتی ہے۔ جب بھوک کی اشتہا اپنے عروج پر ہوتی ہے، بچوں کی بھوک، بھوک کی پکار باپ کا ذہن ما ؤف کر دیتی ہے تو انسان اشرف المخلوقات ہونے کا ہر فلسفہ بھول جاتا ہے۔ بھوک وہ طاقتور قوت بن جاتی ہے جو ماں کو اپنا لخت جگر مار ڈالنے پر مجبور کر دیتی ہے، یہ وہ تکلیف و اذیت دیتی ہے جو عزتداروں کو اپنی عزت بیچ ڈالنے کا راستہ مہیا کرتی ہے۔ بھوک کا کوئی مذہب نہیں، کوئی ملک نہیں، کوئی سیاسی اور سماجی نظریہ نہیں، یہ تو اذیت کی ایک کیفیت ہے جو سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں نہ رنگ کا تضاد ہے، نہ نسل کا فرق۔ بھارت کی سڑ کوں پر مرتے لوگ، تھر کے صحراؤں میں جان دیتے بچے، افریقہ کے ریگستانوں میں گدھ کا شکار ہوتے نیم جاں بچے سب ایک ہی کہانی کے مختلف کردار ہیں۔ یہ کردار بھوک پر بحث نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں بھوک تو اذیت ہے جو محسوس ہوتی ہے، بھلا احساس پر بحث کیا کرنی؟

بحث تو وہ کرتے ہیں جن کے پیٹ بھرے ہوں، وہ انواع واقسام کے کھانوں سے سجی میز پر بیٹھ کر بھوک مٹانے پر تبصرہ کرتے ہیں، اس کو اپنا منشور بنا کر ووٹ بٹورتے ہیں، بین الاقوامی ڈونرز سے پیسہ بٹورتے ہیں مگر نہ بھوک کم ہوتی ہے نہ بھوک سے مرنے والوں کی تعداد۔ بھوک کی کوئی جغرافیائی تقسیم نہیں کیونکہ ہر خطہ کے بحث کرنے والے بھوک مٹانے میں یکساں ناکام رہے ہیں۔ یہ تو ہر روز اُمڈ آتی ہے، ماں کی سسکیوں میں، بچے کے بلکنے میں، باپ کی بےبسی میں، ہر روز کئی لوگ چند لقموں کے لیے تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ ہمسائیوں کا دیا گیا روٹی کا ایک ٹکڑا، حکومت کی طرف سے ایک بار بانٹی گئی دیگ کے چاول، اس بھوک کو مٹا نہیں سکتے۔ صرف بھارت میں تین سو بچے ہر روز بھوک سے مر جاتے ہیں، تھر کے مکیں سراپا بھوک ہیں، بھارت کی بیالیس فیصد آبادی بھوکی ہے۔ بھوک مٹتی ہی نہیں۔ پھر باپ اپنے بچے بیچ دیتا ہے، ماں اٰنہیں لے کر پٹڑی پر کود جاتی ہے، کبھی اٰن کا گلا کاٹ دیتی ہے، پھر بھی بھوک ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔

بھوک اس دنیا کا ناقابل حل معمہ ہے۔ اقوام متحدہ Ù†Û’ بھوک Ú©Ùˆ اس صدی کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے کر اس Ú©Ùˆ دو ہزار پندرہ تک Ú©Ù… کرنے Ú©ÛŒ سعی بھی Ú©ÛŒ مگر بھوک پھر بھی باقی رہی۔ اس Ù†Û’ یہ ثابت کر دیا کہ یہ اقوام عالم Ú©Û’ غریبوں Ú©ÛŒ دائمی اذیت ہے۔ رب Ú©ÛŒ زمین پر پیدا ہونے والا اناج اگر موجودہ آبادی سے کئی گنازیادہ Ú©Û’ لیے کافی ہے تو پھر کوئی بتائے کہ موجودہ آبادی میں سے بھی آدھی کیوں بھوکی ہے۔ بھوک پر بحث کرنے والوں Ù†Û’ رب Ú©Û’ رزق Ú©Ùˆ آپس میں یوں بانٹا ہے کہ بھوک سہنے والے Ú©Û’ لیے ایک لقمہ نہیں بچا۔ کوئی بھی بھوک Ú©ÛŒ اذیت سہنے والوں Ú©Û’ ساتھ اپنی آسائشوں بھری زندگی اور روٹی بانٹنے Ú©Ùˆ تیار نہیں۔ صرف ارباب اختیار نہیں، پیٹ بھر کھانے والا عام آدمی بھی بے حس ہے۔ ہم عزت Ú©Ùˆ بھوک Ú©Û’ بدلے بیچنے والے نیم جاں Ú©Ùˆ سنگسار تو کر دیں Ú¯Û’ØŒ اسے روٹی نہیں دیں Ú¯Û’Û” ہم بلکتے بچوں Ú©Ùˆ قتل کرنے والی ماں Ú©Ùˆ بے حس اور بدکار تو کہیں Ú¯Û’ØŒ اس Ú©Û’ بچوں Ú©Ùˆ روٹی نہیں دیں Ú¯Û’Û” ہم بھوک پر بحث تو کریں Ú¯Û’ مگر اسے ختم نہیں کریں Ú¯Û’Û” ہم بھوک جیسے عفریت Ú©Ùˆ شکست نہیں دے سکتے تو پھر اس اذیت Ú©Ùˆ مٹانے کا فقط ایک ہی حل ہے، بھوک Ú©Ùˆ سولÛ