اقبال اور اتحاد امت

اقبال اور اتحاد امت

248 0 0

شاعری ہو یا نثر ادب کی یہ دونوں اصناف ہی انسانی شخصیت کے پردوں کو چاک کرتی ہیں۔ انہی افکار اور خیالات کے توسط سے نہ صرف انسانی جذبات آشکار ہوتے ہیں بلکہ ایک شاعر اور ادیب کے علمی اور ادبی قد کا ادراک کرنے میں بھی آسانی رہتی ہے۔

علامہ اقبال کو جدید دور کا صوفی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ایسے مرد قلندر ہیں جو نہ صرف تصوف کا درس دیتے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ مسلم امہ کو ان کی کوتاہیوں سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔

اقبال کی شاعری درحقیقت زندگی کے تمام تر موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شاعر مشرق کا کلام بیک وقت آسان اور مشکل نظر آتا ہے اور آج تک بھی اقبال کے افکار کی توضیح و تشریح کوئی آسان کام نہیں۔ اگرچہ اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ اسلام اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو یاد کرنے اور اسے بحال کرنے کی شدید خواہش کا مظہر ہے اور اقبال اپنی ملت کو دنیا کی تمام تر اقوام سے اعلٰی سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں قوم رسول ہاشمی کا مرتبہ جداگانہ اور منفرد ہے۔

(بحوالہ بی بی سی اردو تحریر ؛ عارف وقار اشاعت ۸ نومبر ۲۰۰۶)

اسی لئے ایک جگہ اقبال ملت اسلامیہ کو اتحاد کا درس دیتے ہوئے اسکی غیرت و حمیت کے بارے میں کہتے ہیں

اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

حکیم الامت علامہ اقبال کے تصور ملت کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں ملت کے عناصر ترکیبی کو جاننا چاہیے۔ مجلس اسلامی تحقیق کے اہم مجلے محدث کے مطابق ملت کے لئے حاکمیت ، نبوت ، خلافت اور پھر امت جیسے عناصر ترکیبی کا ہونا لازم ہے۔ اقبال کے نزدیک حاکمیت بلا شرکت غیرے اللہ تعالی کی ہے جبکہ بنوت کے معاملے میں بھی وہ کھرے ہیں۔ اقبال سچے عاشق رسول ہیں۔ اقبال شناسی کے لئے ہمیں خودی ، بے نیازی ، تصوف اور مقام درویش سب کو سمجھنا ہو گا۔

الطمش لشکری پوری کلکتہ اپنے ایک مراسلے میں علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کا حوالہ دیتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی صورت رکھتا ہے اور وطن پرستی بت پرستی کی ہی ایک صورت ہے۔ علامہ اقبال کے وحدت امت کے تصور کو سمجھنے کے لئے ان کی کتاب The Reconstruction of Religious thoughts in Islam کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی “تشکیل جدید الہیہ اسلامیہ” کے نام سے دستیاب ہے امت مسلمہ کے لئے اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اقبال کہتے ہیں۔

’’بحالت موجودہ تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ امم اسلامیہ میں ہر ایک کو اپنی ذات میں ڈوب جانا چاہیے انھیں چاہیے کہ اپنی ساری توجہ اپنے آپ پر مرتکز کر دیں، حتی کہ ان سب میں اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ باہم مل کر اسلامی جمہورتیوں کی ایک برادری کی شکل اختیار کر لیں۔ حزب الوطنی کے زعما ٹھیک کہتے ہیں کہ عالم اسلام کا ایک حقیقی اور موثر اتحاد ایسا آسان نہیں کہ محض ایک خلیفہ کے نمائشی تقرر سے وجود میں آجائے۔ میں تو کچھ یونہی دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ شاید مسلمانوں کو بتدریج سمجھا رہی ہے کہ اسلام نہ تو وطنیت ہے نہ شہنشاہیت بلکہ ایک انجمن اقوام جس نے ہمارے خود پیدا کردہ حدود اور نسلی امتیازات کو تسلیم کیا ہے تو محض سہولت تعارف کے لیے، اسلئے نہیں کہ اس کے ارکان اپنا اجتماعی مطمع نظر محدود کر لیں۔

اقبال امت کے اتحاد کے لئے مذہب کو بنیاد قرار دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ تمام مسلمان ایک طاقت ہیں ایک عمارت