Poetry

Poetry

151 1 0

سنگدل کتنے تیرے شہر کے منظر نکلے
جن کی مہماں تھی شبِ غم وہی بے گھر نکلے

ایسی آنکھوں سے تو بہتر تھا کہ اندھے ہوتے
ہم جسے آئینہ سمجھے وہی پتھر نکلے

دن بُرے ہوں تو گُہر پر بھی ہو کنکر کا گماں
بن پڑے بات تو صحرا بھی سمندر نکلے

آبگینوں کو جو توڑا تو وہ ٹھہرے مٹی
سنگیزوں کو جو پرکھا تو وہ "مرمر" نکلے

جن کو نفرت سے ہَوا، راہ میں چھوڑ آئی تھی
آسماں پر وہی ذرے مہ و اختر نکلے

شہر والوں نے جنہیں دار کا مجرم سمجھا
وہ گنہگار محبت کے پیمبر نکلے

خوف سے موت کی ہچکی بھی اٹک جاتی ہے
اس خامشی میں کہاں کوئی سُخنور نکلے؟

میری ہر سانس تھی میزانِ عدالت محسنؔ
جتنے محشر تھے میرے جسم کے اندر نکلے !